تفسير ابن كثير



سورۃ الصافات

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَاسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ[149] أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ[150] أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ[151] وَلَدَ اللَّهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ[152] أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ[153] مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ[154] أَفَلَا تَذَكَّرُونَ[155] أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ[156] فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ[157] وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ[158] سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ[159] إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ[160]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس ان سے پوچھ کیا تیرے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے؟ [149] یا ہم نے فرشتوں کو مؤنث پیدا کیا، جب کہ وہ حاضر تھے۔ [150] سن لو !بے شک وہ یقینا اپنے جھوٹ ہی سے کہتے ہیں [151] کہ اللہ نے اولاد جنی اور بے شک وہ یقینا جھوٹے ہیں۔ [152] کیا اس نے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی؟ [153] کیا ہے تمھیں، تم کیسا فیصلہ کر رہے ہو؟ [154] تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ [155] یا تمھارے پاس کوئی واضح دلیل ہے؟ [156] تو لاؤ اپنی کتاب، اگر تم سچے ہو۔ [157] اور انھوں نے اس کے درمیان اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنادی، حالانکہ بلا شبہ یقینا جن جان چکے ہیں کہ بے شک وہ ضرور حاضر کیے جانے والے ہیں۔ [158] اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ [159] مگر اللہ کے وہ بندے جو چنے ہوئے ہیں۔ [160]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ان سے دریافت کیجئے! کہ کیا آپ کے رب کی تو بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں؟ [149] یا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو مؤنﺚ پیدا کیا [150] آگاه رہو! کہ یہ لوگ صرف اپنی افترا پردازی سے کہہ رہے ہیں [151] کہ اللہ تعالی کی اوﻻد ہے۔ یقیناً یہ محض جھوٹے ہیں [152] کیا اللہ تعالی نے اپنے لیے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی [153] تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسے حکم لگاتے پھرتے ہو؟ [154] کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے؟ [155] یا تمہارے پاس اس کی کوئی صاف دلیل ہے [156] تو جاؤ اگر سچے ہو تو اپنی ہی کتاب لے آؤ [157] اور ان لوگوں نے تو اللہ کے اور جنات کے درمیان بھی قرابت داری ٹھہرائی ہے، اور حاﻻنکہ خود جنات کو معلوم ہے کہ وه (اس عقیده کے لوگ عذاب کے سامنے) پیش کیے جائیں گے [158] جو کچھ یہ (اللہ کے بارے میں) بیان کر رہے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ بالکل پاک ہے [159] سوائے! اللہ کے مخلص بندوں کے [160]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ان سے پوچھو تو کہ بھلا تمہارے پروردگار کے لئے تو بیٹیاں اور ان کے لئے بیٹے [149] یا ہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایا اور وہ (اس وقت) موجود تھے [150] دیکھو یہ اپنی جھوٹ بنائی ہوئی (بات) کہتے ہیں [151] کہ خدا کے اولاد ہے کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں [152] کیا اس نے بیٹوں کی نسبت بیٹیوں کو پسند کیا ہے؟ [153] تم کیسے لوگ ہو، کس طرح کا فیصلہ کرتے ہو [154] بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے [155] یا تمہارے پاس کوئی صریح دلیل ہے [156] اگر تم سچے ہو تو اپنی کتاب پیش کرو [157] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا۔ حالانکہ جنات جانتے ہیں کہ وہ (خدا کے سامنے) حاضر کئے جائیں گے [158] یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں خدا اس سے پاک ہے [159] مگر خدا کے بندگان خالص (مبتلائے عذاب نہیں ہوں گے) [160]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 149، 150، 151، 152، 153، 154، 155، 156، 157، 158، 159، 160،

مشرکین کا اللہ تعالٰی کے لئے دوہرا معیار ٭٭

اللہ تعالیٰ مشرکوں کی بیوقوفی بیان فرما رہا ہے کہ ” اپنے لیے تو لڑکے پسند کرتے ہیں اور اللہ کے لیے لڑکیاں مقرر کرتے ہیں۔ اگر لڑکی ہونے کی خبر یہ پائیں تو چہرے سیاہ پڑ جاتے ہیں اور اللہ کی لڑکیاں ثابت کرتے ہیں “۔

پس فرماتا ہے ” ان سے پوچھ تو سہی کہ یہ تقسیم کیسی ہے؟ کہ تمہارے تو لڑکے ہوں اور اللہ کے لیے لڑکیاں ہوں؟ “

پھر فرماتا ہے کہ ” یہ فرشتوں کو لڑکیاں کس ثبوت پر کہتے ہیں؟ کیا ان کی پیدائش کے وقت وہ موجود تھے “۔

قرآن کی اور آیت «‏‏‏‏وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّ‌حْمَـٰنِ إِنَاثًا أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ» ‏‏‏‏ [43-الزخرف:19] ‏‏‏‏، میں بھی یہی بیان ہے۔

دراصل یہ قول ان کا محض جھوٹ ہے۔ کہ اللہ کے ہاں اولاد ہے۔ وہ اولاد سے پاک ہے۔ پس ان لوگوں کے تین جھوٹ اور تین کفر ہوئے اول تو یہ کہ فرشتے اللہ کی اولاد ہیں دوسرے یہ کہ اولاد بھی لڑکیاں تیسرے یہ کہ خود فرشتوں کی عبادت شروع کر دی۔
7622

پھر فرماتا ہے کہ «‏‏‏‏أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنثَىٰ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَىٰ» [ 53-النجم: 21، 22 ] ‏‏‏‏ آخر کس چیز نے اللہ کو مجبور کیا کہ اس نے لڑکے تو لیے نہیں اور لڑکیاں اپنی ذات کے لیے پسند فرمائیں؟ جیسے اور آیت میں ہے کہ «أَفَأَصْفَاكُمْ رَ‌بُّكُم بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا» [17-الإسراء:40] ‏‏‏‏ ” تمہیں تو لڑکوں سے نوازے اور فرشتوں کو اپنی لڑکیاں بنائے یہ تو تمہاری نہایت درجہ کی لغویات ہے “۔

یہاں فرمایا ” کیا تمہیں عقل نہیں جو ایسی دور از قیاس باتیں بناتے ہو تم سمجھتے نہیں ہو ڈرو کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کیسا برا ہے؟ اچھا گر کوئی دلیل تمہارے پاس ہو تو لاؤ اسی کو پیش کرو۔ یا اگر کسی آسمانی کتاب سے تمہارے اس قول کی سند ہو اور تم سچے ہو تو لاؤ اسی کو سامنے لے آؤ۔ یہ تو ایسی لچر اور فضول بات ہے جس کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہو ہی نہیں سکتی “۔

اتنے ہی پر بس نہ کی، جنات میں اور اللہ میں بھی رشتے داری قائم کی۔ مشرکوں کے اس قول پر کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ پھر ان کی مائیں کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا جن سرداروں کی لڑکیاں۔ حالانکہ خود جنات کو اس کا یقین و علم ہے کہ اس قول کے قائل قیامت کے دن عذابوں میں مبتلا کئے جائیں گے۔ ان میں بعض دشمنان اللہ تو یہاں تک کم عقلی کرتے تھے کہ شیطان بھی اللہ کا بھائی ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:535/10:] ‏‏‏‏ نعوذ باللہ۔

اللہ تعالیٰ اس سے بہت پاک منزہ اور بالکل دور ہے جو یہ مشرک اس کی ذات پر الزام لگاتے ہیں اور جھوٹے بہتان باندھتے ہیں۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے اور ہے مثبت مگر اس صورت میں کہ «یَصِفُوْنَ» کی ضمیر کا مرجع تمام لوگ قرار دیئے جائیں۔ پس ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا جو حق کے ماتحت ہیں اور تمام نبیوں رسولوں علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔

امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ استثناء «اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ» سے ہے یعنی ” سب کے سب عذاب میں پھانس لیے جائیں گے مگر وہ بندگان جو اخلاص والے تھے “۔ یہ قول ذرا تامل طلب ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
7623



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.